Thursday, March 3, 2011

قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کا ایک انقلابی قدم

اردو صحافیوں کی صلاحیت سازی
قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کا ایک انقلابی قدم
طفیل احمد علیمی
15 جنوری 2011 سے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نے قلیل مدتی کورس ”اردو صحافیوں کی صلاحیت سازی“ کے ذریعہ ایک نئے باب کا آغاز کیا، جس کے تحت اردو صحافیوں کو ماہرین کے ذریعہ تربیت دی گئی اورانہیں دہلی میں میڈیاکے چار بڑے اداروں کا دورہ کرایا گیا۔ ان میں نیوز ایجنسی یواین آئی، نیوز چینل ای ٹی وی، روزنامہ راشٹریہ سہارا/عالمی سہارا، جامعہ ایف ایم ریڈیو کا دورہ شامل ہے۔ بلاشبہ اس قلیل مدتی کورس سے اردو صحافیوںکو بہت فائدہ پہنچا ہے۔ یقینی طور پر یہ کورس ہماری صحافتی زندگی میں رہنمائی کرے گا۔
یوں تو قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، اردو کے فروغ کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتی ہے۔کونسل کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد حمیداللہ بھٹ صاحب اردو کے فروغ کے لیے ہمیشہ سرگرم رہتے ہیں اور یہ انہیں کی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ صحافی حضرات ماہرین صحافت سے مستفید ہوئے۔ یہ تربیتی پروگرام خاص طور سے ان حضرات کے لیے کافی مفید ثابت ہوا، جو صحافت کا کورس کیے بغیر صحافت سے وابستہ ہیں۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کو اس پروگرام کی توسیع پورے ملک میں کرنی چاہیے، تاکہ پورے ہندوستان کے اردو صحافی اس کورس سے مستفید ہوسکیں اور اردو صحافت بھی انگریزی اور ہندی صحافت کے مقابلے میں کھڑی ہوسکے۔
قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے قلیل مدتی کورس میں جن حضرات نے اپنے لیکچر سے اردوصحافیوں کو مستفید کیا وہ مندرجہ ذیل ہیں:
جناب کلدیپ نیرصاحب(پبلک پالیسی اینڈ ماس میڈیا)، جناب عزیز برنی صاحب(پولیٹیکل رپورٹنگ)، محترمہ شیبا فہمی صاحبہ(ایڈیٹوریل)، جناب اوپی ورماصاحب(بک/فلم ریویو)، جناب ضیاءالحق صاحب(نیوز اینڈ رپورٹنگ)، جناب ظفر آغاصاحب(انٹرویوز اینڈ ایشوز)، جسٹس بی اے خان صاحب(لاءاینڈ فریڈم آف پریس)، جناب شیخ منظورصاحب(انٹرو اینڈ کنسٹرکشن آف اسٹوری)، جناب نصرت ظہیرصاحب(پارلیمنٹ رپورٹنگ)، جناب شہاب الدین صاحب(الیکٹرانک میڈیا)، جناب بشارت احمدصاحب(کمیونی کیشن ڈیولپمنٹ)، جناب فیروز بخت احمدصاحب(ایشوز اِن اردو جرنلزم)، جناب رشید قدوائی صاحب(پولیٹیکل رپورٹنگ)، ڈاکٹر ظفرالاسلام خان صاحب(کنسٹرکشن آف اسٹوری اینڈ میڈیا ایتھکس)، جناب تحسین منورصاحب(کورنگ پریس کانفرنس)، جناب شاہد صدیقی صاحب(گلوبلائزیشن اینڈ پلانیٹ ارتھ) اور محترمہ مخدومہ سادات صاحبہ۔
 23 جنوری 2011 کو شرکاءنے نیوز ایجنسی یو این آئی کادورہ کیا۔ جہاں انہیں یو این آئی کے بارے میں تفصیلی معلومات فراہم کرائی گئیں۔ یو این آئی کے عہدیداران نے نیوز ایجنسی کا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ یہ نیوز ایجنسی تین زبانوں انگریزی، ہندی اور اردو میں خبریں ریلیز کرتی ہے۔یو این آئی کے پورے ملک میں تقریباً 400 مستقل ملازمین ہیں، اس کے علاوہ ہندوستان کے ہر ضلع میں اس کے اسٹرنگرز (Stringers) موجود ہیں،جو خبریں بھیجتے ہیں۔
شرکاءنے تینوں شعبوں میں جا کر ذمہ داران سے پوری معلومات حاصل کی۔ شرکاءکو بتایا گیا کہ نامہ نگار حضرات انہیں خبریں بھیجتے ہیں، ان خبروں کے سلیکشن کے بعد ایڈیٹنگ ہوتی ہے ، پھر انہیں سبسکرائبر کے پاس بھیج دیا جاتا ہے۔ خبروں کی ترسیل کے بارے میں بھی پوری تفصیل کے ساتھ بتایا گیا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ یو این آئی اپنے نامہ نگاروں کے علاوہ دیگر نیوز ایجنسیوں کی بھی مدد لیتی ہے۔ بالخصوص عالمی خبروں کے لیے نیوز ایجنسی ’رائٹر‘ کی مدد لی جاتی ہے۔
شرکاءکو تینوں شعبوں کے علاوہ یواین آئی کے فوٹو اینڈ گرافکس ڈپارٹمنٹ میں بھی لے جایا گیا، جہاں انہیں بتایا گیا کہ یو این آئی کو فوٹو گرافرز فوٹو بھیجتے ہیں، پہلے تو ان فوٹوز کا خبروں کے مطابق انتخاب کیا جاتا ہے، پھر انہیں سبسکرائبرز کے پاس بھیجا جاتا ہے۔ یواین آئی اپنے مستقل فوٹو گرافرز کے علاوہ ان فوٹو گرافرز کی بھی مدد لیتی ہے جو اخبارات و رسائل کی خدمات انجام دیتے ہیں۔ یو این آئی انہیں ان فوٹوز کا مناسب معاوضہ بھی دیتی ہے۔یو این آئی فوٹو سروس بیرونی ممالک سے تصاویر حاصل کرنے کے لیے دوسری ایجنسیوں سے بھی مدد لیتی ہے۔
 6 فروری 2011بروز اتوار شرکاءکو نیوز چینل ”ای ٹی وی“ کادورہ کرایا گیا۔ ای ٹی وی اردو کے جناب راجیش ریناصاحب(چینل ہیڈ)، جناب شیلندرصاحب(سینئر رپورٹر) اور ڈاکٹرقاسم انصاری صاحب(رپورٹر)نے الیکٹرانک میڈیا کے حوالے سے اپنے تجربات کی روشنی میں شرکاءکو تفصیلی معلومات فراہم کرائیں۔
قاسم انصاری صاحب نے شرکاءکو خبروں کی رپورٹنگ سے لے کر نشر کیے جانے تک کے پورے عمل سے واقف کرایا۔ انہوں نے بتایا کہ الیکٹرانک میڈیا میں سب سے اہم وزیول ہوتا ہے۔جب کسی پروگرام کی رپورٹنگ کی جاتی ہے تو اس پروگرام کی مختلف ایونٹ کے ساتھ پروگرام میں موجود اہم شخصیات کی تصویریں لی جاتی ہیں۔ پروگرام کو آرگنائز کرنے والے سے اس کے مقاصد کے بارے میں معلومات حاصل کی جاتی ہے۔ پروگرام میں شامل لوگوں کی رائے لی جاتی ہے۔پھر اس رپورٹ کو ایڈیٹوریل میں بھیجا جاتا ہے۔ ایڈیٹوریل میں اس رپورٹ کی پہلے پریویو دیکھی جاتی ہے، پھر اسے ویڈیو ایڈیٹر کے پاس بھیج دیا جاتاہے۔ ویڈیو ایڈیٹر اس کی ایڈیٹنگ کرتا ہے اور پھر اس رپورٹ کو آخری شکل دے کر وی سیٹ کے ذریعہ نشر کرنے کے لیے بھیج دیاجاتا ہے۔
 قاسم انصاری صاحب نے کہا کہ صحافیوں کو اپنی دلچسپی کے مطابق فیلڈ اختیار کرکے اس میں مہارت حاصل کرنا چاہیے۔ انہوں نے شرکاءکو الیکٹرانک میڈیا کی ترغیب دیتے ہوئے کہا کہ نوجوانوں کو اور بالخصوص اردو جاننے والے نوجوانوں کو الیکٹرانک میڈیا سے جڑنا چاہیے اور الیکٹرانک میڈیا میں کام کرنا کوئی مشکل امر بھی نہیں ہے۔
13 فروری 2011بروز اتوار شرکاءکو روزنامہ راشٹریہ سہارا اور نیوز چینل عالمی سہارا کادورہ کرایا گیا۔روزنامہ راشٹریہ سہارا کے بیورو چیف جناب اسد رضا صاحب اور سینئر صحافی جناب شکیل حسن شمسی صاحب نے شرکاءکو بہت کار آمد باتیں بتائیں۔ اسد رضا صاحب نے شرکاءکی توجہ ان الفاظ کی جانب دلائی جن کا غلط استعمال ہندی اخبارات یا نیوز چینلوں میں کیا جاتا ہے۔ شکیل حسن شمسی صاحب نے شرکاءکو ترجمہ نگاری کی تکنیک سے روشناس کرایا۔ اردو نیوز چینل عالمی سہاراکے اعجاز الرحمن صاحب نے شرکاءکو الیکٹرانک میڈیا کی باریکیوں سے آگاہ کرایا اور انہیں چینل کے پورے سیٹ اپ کا معائنہ کروایا۔
27 فروری 2011بروز اتوار شرکاءکو جامعہ ماس کمیونی کیشن اور ایف ایم ریڈیو کادورہ کرایا گیا۔جہاں پر ماس کمیونی کیشن کے اسٹوڈیو اور ایف ریڈیو کا معائنہ کروایا گیا۔انڈین نیشنل ٹرسٹ فار آرٹ اینڈ کلچرل ہیئریٹیج(INTACH) کے جناب ایم سلیم بیگ صاحب نے فن اور ثقافتی وراثت سے متعلق شرکاءکو تفصیلی معلومات فراہم کرائیں۔
اسی طرح ”قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان“ کے ذریعے شروع کیا جانے والا ”اردو صحافیوں کی صلاحیت سازی“ کا یہ تربیتی کورس پایہ ¿ تکمیل کو پہنچا۔ اس تربیتی کورس سے اس دستے میں شریک ہونے والے لوگوں کو یقینی طور پر صحافت کے حقیقی رموز سے واقفیت ہوئی۔ صحافت کیا ہے؟ رپورٹنگ کیسے ہوتی ہے؟ تبصرہ کیسے کیا جاتا ہے؟ انٹرویو کس طرح کیے جاتے ہیں؟ ترجمے کی تکنیک کیا ہے؟ مضمون نگاری کے طریقے غرضیکہ اس تربیتی کورس سے ہمیں نہ صرف صحافت کے طور طریقہ کا علم ہوا، بلکہ صحافت کے اصول و ضوابط سے بھی واقفیت ہوئی۔بلاشبہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کا اردو کے تئیں یہ ایک تعمیری قدم ہے۔ اس کورس کے ذریعے صحافت سے متعلق ہماری معلومات میں اضافہ ہوا ہے۔ یقینی طور پر یہ کورس ہماری صحافتی زندگی میں ہماری رہنمائی کرے گا۔ اس کے لیے ہم قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان اور اس کے اسٹاف کے مخلصانہ سلوک کے شکر گزار ہیں۔ آخر میں ہم اردو ادارے کے اس میر کارواں کا صدق دل سے شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں جس کی اردو کے تئیں محبت نے اردو صحافیوں کے لیے اتنی اہم خدمات انجام دیں۔ ہماری مراد ہے ڈاکٹرمحمد حمید اللہ بھٹ صاحب سے جن کی کاوشوں سے اردو صحافیوں کا یہ دستہ اپنی نوک پلک درست کر کے میدان عمل میں جارہا ہے۔ آخر میں اردو کے فروغ کے اس سپہ سالار سے درخواست کروںگا کہ اردو کی بقا کے لیے اور اردو صحافت کو انگریزی اور ہندی صحافت کے مقابلے میں لانے کے لیے ایسے تربیتی کورس کا سلسلہ آگے بھی جاری رکھیں۔

1 comment: