Thursday, March 10, 2011
Thursday, March 3, 2011
قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کا ایک انقلابی قدم
اردو صحافیوں کی صلاحیت سازی
قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کا ایک انقلابی قدم
15 جنوری 2011 سے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نے قلیل مدتی کورس ”اردو صحافیوں کی صلاحیت سازی“ کے ذریعہ ایک نئے باب کا آغاز کیا، جس کے تحت اردو صحافیوں کو ماہرین کے ذریعہ تربیت دی گئی اورانہیں دہلی میں میڈیاکے چار بڑے اداروں کا دورہ کرایا گیا۔ ان میں نیوز ایجنسی یواین آئی، نیوز چینل ای ٹی وی، روزنامہ راشٹریہ سہارا/عالمی سہارا، جامعہ ایف ایم ریڈیو کا دورہ شامل ہے۔ بلاشبہ اس قلیل مدتی کورس سے اردو صحافیوںکو بہت فائدہ پہنچا ہے۔ یقینی طور پر یہ کورس ہماری صحافتی زندگی میں رہنمائی کرے گا۔
یوں تو قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، اردو کے فروغ کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتی ہے۔کونسل کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد حمیداللہ بھٹ صاحب اردو کے فروغ کے لیے ہمیشہ سرگرم رہتے ہیں اور یہ انہیں کی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ صحافی حضرات ماہرین صحافت سے مستفید ہوئے۔ یہ تربیتی پروگرام خاص طور سے ان حضرات کے لیے کافی مفید ثابت ہوا، جو صحافت کا کورس کیے بغیر صحافت سے وابستہ ہیں۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کو اس پروگرام کی توسیع پورے ملک میں کرنی چاہیے، تاکہ پورے ہندوستان کے اردو صحافی اس کورس سے مستفید ہوسکیں اور اردو صحافت بھی انگریزی اور ہندی صحافت کے مقابلے میں کھڑی ہوسکے۔
قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے قلیل مدتی کورس میں جن حضرات نے اپنے لیکچر سے اردوصحافیوں کو مستفید کیا وہ مندرجہ ذیل ہیں:
یوں تو قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، اردو کے فروغ کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتی ہے۔کونسل کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد حمیداللہ بھٹ صاحب اردو کے فروغ کے لیے ہمیشہ سرگرم رہتے ہیں اور یہ انہیں کی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ صحافی حضرات ماہرین صحافت سے مستفید ہوئے۔ یہ تربیتی پروگرام خاص طور سے ان حضرات کے لیے کافی مفید ثابت ہوا، جو صحافت کا کورس کیے بغیر صحافت سے وابستہ ہیں۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کو اس پروگرام کی توسیع پورے ملک میں کرنی چاہیے، تاکہ پورے ہندوستان کے اردو صحافی اس کورس سے مستفید ہوسکیں اور اردو صحافت بھی انگریزی اور ہندی صحافت کے مقابلے میں کھڑی ہوسکے۔
قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے قلیل مدتی کورس میں جن حضرات نے اپنے لیکچر سے اردوصحافیوں کو مستفید کیا وہ مندرجہ ذیل ہیں:
جناب کلدیپ نیرصاحب(پبلک پالیسی اینڈ ماس میڈیا)، جناب عزیز برنی صاحب(پولیٹیکل رپورٹنگ)، محترمہ شیبا فہمی صاحبہ(ایڈیٹوریل)، جناب اوپی ورماصاحب(بک/فلم ریویو)، جناب ضیاءالحق صاحب(نیوز اینڈ رپورٹنگ)، جناب ظفر آغاصاحب(انٹرویوز اینڈ ایشوز)، جسٹس بی اے خان صاحب(لاءاینڈ فریڈم آف پریس)، جناب شیخ منظورصاحب(انٹرو اینڈ کنسٹرکشن آف اسٹوری)، جناب نصرت ظہیرصاحب(پارلیمنٹ رپورٹنگ)، جناب شہاب الدین صاحب(الیکٹرانک میڈیا)، جناب بشارت احمدصاحب(کمیونی کیشن ڈیولپمنٹ)، جناب فیروز بخت احمدصاحب(ایشوز اِن اردو جرنلزم)، جناب رشید قدوائی صاحب(پولیٹیکل رپورٹنگ)، ڈاکٹر ظفرالاسلام خان صاحب(کنسٹرکشن آف اسٹوری اینڈ میڈیا ایتھکس)، جناب تحسین منورصاحب(کورنگ پریس کانفرنس)، جناب شاہد صدیقی صاحب(گلوبلائزیشن اینڈ پلانیٹ ارتھ) اور محترمہ مخدومہ سادات صاحبہ۔
23 جنوری 2011 کو شرکاءنے نیوز ایجنسی یو این آئی کادورہ کیا۔ جہاں انہیں یو این آئی کے بارے میں تفصیلی معلومات فراہم کرائی گئیں۔ یو این آئی کے عہدیداران نے نیوز ایجنسی کا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ یہ نیوز ایجنسی تین زبانوں انگریزی، ہندی اور اردو میں خبریں ریلیز کرتی ہے۔یو این آئی کے پورے ملک میں تقریباً 400 مستقل ملازمین ہیں، اس کے علاوہ ہندوستان کے ہر ضلع میں اس کے اسٹرنگرز (Stringers) موجود ہیں،جو خبریں بھیجتے ہیں۔
شرکاءنے تینوں شعبوں میں جا کر ذمہ داران سے پوری معلومات حاصل کی۔ شرکاءکو بتایا گیا کہ نامہ نگار حضرات انہیں خبریں بھیجتے ہیں، ان خبروں کے سلیکشن کے بعد ایڈیٹنگ ہوتی ہے ، پھر انہیں سبسکرائبر کے پاس بھیج دیا جاتا ہے۔ خبروں کی ترسیل کے بارے میں بھی پوری تفصیل کے ساتھ بتایا گیا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ یو این آئی اپنے نامہ نگاروں کے علاوہ دیگر نیوز ایجنسیوں کی بھی مدد لیتی ہے۔ بالخصوص عالمی خبروں کے لیے نیوز ایجنسی ’رائٹر‘ کی مدد لی جاتی ہے۔
شرکاءکو تینوں شعبوں کے علاوہ یواین آئی کے فوٹو اینڈ گرافکس ڈپارٹمنٹ میں بھی لے جایا گیا، جہاں انہیں بتایا گیا کہ یو این آئی کو فوٹو گرافرز فوٹو بھیجتے ہیں، پہلے تو ان فوٹوز کا خبروں کے مطابق انتخاب کیا جاتا ہے، پھر انہیں سبسکرائبرز کے پاس بھیجا جاتا ہے۔ یواین آئی اپنے مستقل فوٹو گرافرز کے علاوہ ان فوٹو گرافرز کی بھی مدد لیتی ہے جو اخبارات و رسائل کی خدمات انجام دیتے ہیں۔ یو این آئی انہیں ان فوٹوز کا مناسب معاوضہ بھی دیتی ہے۔یو این آئی فوٹو سروس بیرونی ممالک سے تصاویر حاصل کرنے کے لیے دوسری ایجنسیوں سے بھی مدد لیتی ہے۔
6 فروری 2011بروز اتوار شرکاءکو نیوز چینل ”ای ٹی وی“ کادورہ کرایا گیا۔ ای ٹی وی اردو کے جناب راجیش ریناصاحب(چینل ہیڈ)، جناب شیلندرصاحب(سینئر رپورٹر) اور ڈاکٹرقاسم انصاری صاحب(رپورٹر)نے الیکٹرانک میڈیا کے حوالے سے اپنے تجربات کی روشنی میں شرکاءکو تفصیلی معلومات فراہم کرائیں۔
قاسم انصاری صاحب نے شرکاءکو خبروں کی رپورٹنگ سے لے کر نشر کیے جانے تک کے پورے عمل سے واقف کرایا۔ انہوں نے بتایا کہ الیکٹرانک میڈیا میں سب سے اہم وزیول ہوتا ہے۔جب کسی پروگرام کی رپورٹنگ کی جاتی ہے تو اس پروگرام کی مختلف ایونٹ کے ساتھ پروگرام میں موجود اہم شخصیات کی تصویریں لی جاتی ہیں۔ پروگرام کو آرگنائز کرنے والے سے اس کے مقاصد کے بارے میں معلومات حاصل کی جاتی ہے۔ پروگرام میں شامل لوگوں کی رائے لی جاتی ہے۔پھر اس رپورٹ کو ایڈیٹوریل میں بھیجا جاتا ہے۔ ایڈیٹوریل میں اس رپورٹ کی پہلے پریویو دیکھی جاتی ہے، پھر اسے ویڈیو ایڈیٹر کے پاس بھیج دیا جاتاہے۔ ویڈیو ایڈیٹر اس کی ایڈیٹنگ کرتا ہے اور پھر اس رپورٹ کو آخری شکل دے کر وی سیٹ کے ذریعہ نشر کرنے کے لیے بھیج دیاجاتا ہے۔
قاسم انصاری صاحب نے کہا کہ صحافیوں کو اپنی دلچسپی کے مطابق فیلڈ اختیار کرکے اس میں مہارت حاصل کرنا چاہیے۔ انہوں نے شرکاءکو الیکٹرانک میڈیا کی ترغیب دیتے ہوئے کہا کہ نوجوانوں کو اور بالخصوص اردو جاننے والے نوجوانوں کو الیکٹرانک میڈیا سے جڑنا چاہیے اور الیکٹرانک میڈیا میں کام کرنا کوئی مشکل امر بھی نہیں ہے۔
13 فروری 2011بروز اتوار شرکاءکو روزنامہ راشٹریہ سہارا اور نیوز چینل عالمی سہارا کادورہ کرایا گیا۔روزنامہ راشٹریہ سہارا کے بیورو چیف جناب اسد رضا صاحب اور سینئر صحافی جناب شکیل حسن شمسی صاحب نے شرکاءکو بہت کار آمد باتیں بتائیں۔ اسد رضا صاحب نے شرکاءکی توجہ ان الفاظ کی جانب دلائی جن کا غلط استعمال ہندی اخبارات یا نیوز چینلوں میں کیا جاتا ہے۔ شکیل حسن شمسی صاحب نے شرکاءکو ترجمہ نگاری کی تکنیک سے روشناس کرایا۔ اردو نیوز چینل عالمی سہاراکے اعجاز الرحمن صاحب نے شرکاءکو الیکٹرانک میڈیا کی باریکیوں سے آگاہ کرایا اور انہیں چینل کے پورے سیٹ اپ کا معائنہ کروایا۔
27 فروری 2011بروز اتوار شرکاءکو جامعہ ماس کمیونی کیشن اور ایف ایم ریڈیو کادورہ کرایا گیا۔جہاں پر ماس کمیونی کیشن کے اسٹوڈیو اور ایف ریڈیو کا معائنہ کروایا گیا۔انڈین نیشنل ٹرسٹ فار آرٹ اینڈ کلچرل ہیئریٹیج(INTACH) کے جناب ایم سلیم بیگ صاحب نے فن اور ثقافتی وراثت سے متعلق شرکاءکو تفصیلی معلومات فراہم کرائیں۔
اسی طرح ”قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان“ کے ذریعے شروع کیا جانے والا ”اردو صحافیوں کی صلاحیت سازی“ کا یہ تربیتی کورس پایہ ¿ تکمیل کو پہنچا۔ اس تربیتی کورس سے اس دستے میں شریک ہونے والے لوگوں کو یقینی طور پر صحافت کے حقیقی رموز سے واقفیت ہوئی۔ صحافت کیا ہے؟ رپورٹنگ کیسے ہوتی ہے؟ تبصرہ کیسے کیا جاتا ہے؟ انٹرویو کس طرح کیے جاتے ہیں؟ ترجمے کی تکنیک کیا ہے؟ مضمون نگاری کے طریقے غرضیکہ اس تربیتی کورس سے ہمیں نہ صرف صحافت کے طور طریقہ کا علم ہوا، بلکہ صحافت کے اصول و ضوابط سے بھی واقفیت ہوئی۔بلاشبہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کا اردو کے تئیں یہ ایک تعمیری قدم ہے۔ اس کورس کے ذریعے صحافت سے متعلق ہماری معلومات میں اضافہ ہوا ہے۔ یقینی طور پر یہ کورس ہماری صحافتی زندگی میں ہماری رہنمائی کرے گا۔ اس کے لیے ہم قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان اور اس کے اسٹاف کے مخلصانہ سلوک کے شکر گزار ہیں۔ آخر میں ہم اردو ادارے کے اس میر کارواں کا صدق دل سے شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں جس کی اردو کے تئیں محبت نے اردو صحافیوں کے لیے اتنی اہم خدمات انجام دیں۔ ہماری مراد ہے ڈاکٹرمحمد حمید اللہ بھٹ صاحب سے جن کی کاوشوں سے اردو صحافیوں کا یہ دستہ اپنی نوک پلک درست کر کے میدان عمل میں جارہا ہے۔ آخر میں اردو کے فروغ کے اس سپہ سالار سے درخواست کروںگا کہ اردو کی بقا کے لیے اور اردو صحافت کو انگریزی اور ہندی صحافت کے مقابلے میں لانے کے لیے ایسے تربیتی کورس کا سلسلہ آگے بھی جاری رکھیں۔
23 جنوری 2011 کو شرکاءنے نیوز ایجنسی یو این آئی کادورہ کیا۔ جہاں انہیں یو این آئی کے بارے میں تفصیلی معلومات فراہم کرائی گئیں۔ یو این آئی کے عہدیداران نے نیوز ایجنسی کا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ یہ نیوز ایجنسی تین زبانوں انگریزی، ہندی اور اردو میں خبریں ریلیز کرتی ہے۔یو این آئی کے پورے ملک میں تقریباً 400 مستقل ملازمین ہیں، اس کے علاوہ ہندوستان کے ہر ضلع میں اس کے اسٹرنگرز (Stringers) موجود ہیں،جو خبریں بھیجتے ہیں۔
شرکاءنے تینوں شعبوں میں جا کر ذمہ داران سے پوری معلومات حاصل کی۔ شرکاءکو بتایا گیا کہ نامہ نگار حضرات انہیں خبریں بھیجتے ہیں، ان خبروں کے سلیکشن کے بعد ایڈیٹنگ ہوتی ہے ، پھر انہیں سبسکرائبر کے پاس بھیج دیا جاتا ہے۔ خبروں کی ترسیل کے بارے میں بھی پوری تفصیل کے ساتھ بتایا گیا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ یو این آئی اپنے نامہ نگاروں کے علاوہ دیگر نیوز ایجنسیوں کی بھی مدد لیتی ہے۔ بالخصوص عالمی خبروں کے لیے نیوز ایجنسی ’رائٹر‘ کی مدد لی جاتی ہے۔
شرکاءکو تینوں شعبوں کے علاوہ یواین آئی کے فوٹو اینڈ گرافکس ڈپارٹمنٹ میں بھی لے جایا گیا، جہاں انہیں بتایا گیا کہ یو این آئی کو فوٹو گرافرز فوٹو بھیجتے ہیں، پہلے تو ان فوٹوز کا خبروں کے مطابق انتخاب کیا جاتا ہے، پھر انہیں سبسکرائبرز کے پاس بھیجا جاتا ہے۔ یواین آئی اپنے مستقل فوٹو گرافرز کے علاوہ ان فوٹو گرافرز کی بھی مدد لیتی ہے جو اخبارات و رسائل کی خدمات انجام دیتے ہیں۔ یو این آئی انہیں ان فوٹوز کا مناسب معاوضہ بھی دیتی ہے۔یو این آئی فوٹو سروس بیرونی ممالک سے تصاویر حاصل کرنے کے لیے دوسری ایجنسیوں سے بھی مدد لیتی ہے۔
6 فروری 2011بروز اتوار شرکاءکو نیوز چینل ”ای ٹی وی“ کادورہ کرایا گیا۔ ای ٹی وی اردو کے جناب راجیش ریناصاحب(چینل ہیڈ)، جناب شیلندرصاحب(سینئر رپورٹر) اور ڈاکٹرقاسم انصاری صاحب(رپورٹر)نے الیکٹرانک میڈیا کے حوالے سے اپنے تجربات کی روشنی میں شرکاءکو تفصیلی معلومات فراہم کرائیں۔
قاسم انصاری صاحب نے شرکاءکو خبروں کی رپورٹنگ سے لے کر نشر کیے جانے تک کے پورے عمل سے واقف کرایا۔ انہوں نے بتایا کہ الیکٹرانک میڈیا میں سب سے اہم وزیول ہوتا ہے۔جب کسی پروگرام کی رپورٹنگ کی جاتی ہے تو اس پروگرام کی مختلف ایونٹ کے ساتھ پروگرام میں موجود اہم شخصیات کی تصویریں لی جاتی ہیں۔ پروگرام کو آرگنائز کرنے والے سے اس کے مقاصد کے بارے میں معلومات حاصل کی جاتی ہے۔ پروگرام میں شامل لوگوں کی رائے لی جاتی ہے۔پھر اس رپورٹ کو ایڈیٹوریل میں بھیجا جاتا ہے۔ ایڈیٹوریل میں اس رپورٹ کی پہلے پریویو دیکھی جاتی ہے، پھر اسے ویڈیو ایڈیٹر کے پاس بھیج دیا جاتاہے۔ ویڈیو ایڈیٹر اس کی ایڈیٹنگ کرتا ہے اور پھر اس رپورٹ کو آخری شکل دے کر وی سیٹ کے ذریعہ نشر کرنے کے لیے بھیج دیاجاتا ہے۔
قاسم انصاری صاحب نے کہا کہ صحافیوں کو اپنی دلچسپی کے مطابق فیلڈ اختیار کرکے اس میں مہارت حاصل کرنا چاہیے۔ انہوں نے شرکاءکو الیکٹرانک میڈیا کی ترغیب دیتے ہوئے کہا کہ نوجوانوں کو اور بالخصوص اردو جاننے والے نوجوانوں کو الیکٹرانک میڈیا سے جڑنا چاہیے اور الیکٹرانک میڈیا میں کام کرنا کوئی مشکل امر بھی نہیں ہے۔
13 فروری 2011بروز اتوار شرکاءکو روزنامہ راشٹریہ سہارا اور نیوز چینل عالمی سہارا کادورہ کرایا گیا۔روزنامہ راشٹریہ سہارا کے بیورو چیف جناب اسد رضا صاحب اور سینئر صحافی جناب شکیل حسن شمسی صاحب نے شرکاءکو بہت کار آمد باتیں بتائیں۔ اسد رضا صاحب نے شرکاءکی توجہ ان الفاظ کی جانب دلائی جن کا غلط استعمال ہندی اخبارات یا نیوز چینلوں میں کیا جاتا ہے۔ شکیل حسن شمسی صاحب نے شرکاءکو ترجمہ نگاری کی تکنیک سے روشناس کرایا۔ اردو نیوز چینل عالمی سہاراکے اعجاز الرحمن صاحب نے شرکاءکو الیکٹرانک میڈیا کی باریکیوں سے آگاہ کرایا اور انہیں چینل کے پورے سیٹ اپ کا معائنہ کروایا۔
27 فروری 2011بروز اتوار شرکاءکو جامعہ ماس کمیونی کیشن اور ایف ایم ریڈیو کادورہ کرایا گیا۔جہاں پر ماس کمیونی کیشن کے اسٹوڈیو اور ایف ریڈیو کا معائنہ کروایا گیا۔انڈین نیشنل ٹرسٹ فار آرٹ اینڈ کلچرل ہیئریٹیج(INTACH) کے جناب ایم سلیم بیگ صاحب نے فن اور ثقافتی وراثت سے متعلق شرکاءکو تفصیلی معلومات فراہم کرائیں۔
اسی طرح ”قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان“ کے ذریعے شروع کیا جانے والا ”اردو صحافیوں کی صلاحیت سازی“ کا یہ تربیتی کورس پایہ ¿ تکمیل کو پہنچا۔ اس تربیتی کورس سے اس دستے میں شریک ہونے والے لوگوں کو یقینی طور پر صحافت کے حقیقی رموز سے واقفیت ہوئی۔ صحافت کیا ہے؟ رپورٹنگ کیسے ہوتی ہے؟ تبصرہ کیسے کیا جاتا ہے؟ انٹرویو کس طرح کیے جاتے ہیں؟ ترجمے کی تکنیک کیا ہے؟ مضمون نگاری کے طریقے غرضیکہ اس تربیتی کورس سے ہمیں نہ صرف صحافت کے طور طریقہ کا علم ہوا، بلکہ صحافت کے اصول و ضوابط سے بھی واقفیت ہوئی۔بلاشبہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کا اردو کے تئیں یہ ایک تعمیری قدم ہے۔ اس کورس کے ذریعے صحافت سے متعلق ہماری معلومات میں اضافہ ہوا ہے۔ یقینی طور پر یہ کورس ہماری صحافتی زندگی میں ہماری رہنمائی کرے گا۔ اس کے لیے ہم قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان اور اس کے اسٹاف کے مخلصانہ سلوک کے شکر گزار ہیں۔ آخر میں ہم اردو ادارے کے اس میر کارواں کا صدق دل سے شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں جس کی اردو کے تئیں محبت نے اردو صحافیوں کے لیے اتنی اہم خدمات انجام دیں۔ ہماری مراد ہے ڈاکٹرمحمد حمید اللہ بھٹ صاحب سے جن کی کاوشوں سے اردو صحافیوں کا یہ دستہ اپنی نوک پلک درست کر کے میدان عمل میں جارہا ہے۔ آخر میں اردو کے فروغ کے اس سپہ سالار سے درخواست کروںگا کہ اردو کی بقا کے لیے اور اردو صحافت کو انگریزی اور ہندی صحافت کے مقابلے میں لانے کے لیے ایسے تربیتی کورس کا سلسلہ آگے بھی جاری رکھیں۔
Monday, February 28, 2011
بدعنوانی کے خلاف عوام بیدار ہوں
طفیل احمد علیمی
بدعنوانی معاشرے کے ہر شعبے میں کینسر کی طرح پھیل چکی ہے۔ انتظامیہ، حکومت اور عدلیہ کوئی بھی اس مہلک بیماری سے محفوظ نہیں ہے۔ان بدعنوانیوں پر لگام لگا پانا حکمراں جماعت خواہ وہ ریاستی حکومت ہو یا مرکزی حکومت ہو، کے سامنے بہت بڑا چیلنج ہے۔ ان بدعنوانیوں کو روکنے کے لیے عوام کو آگے آنا ہوگا۔ جب تک عوام اس کے خلاف آواز بلند نہیں کریںگے، سڑکوں پر نہیں اتریںگے اور زبردست تحریک نہیں چلائیںگے تب تک اقتدار کے نشے میں چور ان حکمرانوں کی نیند نہیں کھلے گی اور نہ ہی ان کی توجہ بدعنوانیوں پر لگام کسنے کی طرف مبذول ہوگی۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام ان بدعنوانیوں اور بے ضابطگیوں سے نجات پانے کے لیے خود سامنے آئیں اور آنے والے انتخابات میں ایسے بدعنوان لوگوں کو ایسا سبق سکھائیں کہ وہ دوسرے لیڈروں کے لیے باعث عبرت ہو۔
عوام بدعنوانی، مہنگائی، بیروزگاری اور فاقہ کشی سے دوچار ہیں۔ ان کا کوئی بھی پرسان حال نہیں ہے۔ چاہے وہ اترپردیش کی برسراقتدار بی ایس پی حکومت ہو یا مرکز کی حکمراں جماعت ہو کسی کی بھی عوام کے مسائل کی طرف کوئی توجہ نہیں ہے۔
جمہوریت میں مضبوط اپوزیشن کا ہونا بھی بہت ضروری ہے۔کسی بھی جمہوریت میں اہم کردار ادا کرنے والی اپوزیشن پارٹی کی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ ایسے حالات میں عوام کے مسائل کو اسمبلی یا پارلیمنٹ کے سامنے رکھے اور ان مسائل کے حل کے لیے بھر پورکوشش کرے۔ لیکن چاہے ریاست اترپردیش کی اپوزیشن جماعت ہو یا مرکزکی اپوزیشن پارٹی ہو، اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام ہے۔
ملک میں بڑھتی ہوئی بدعنوانی، مہنگائی، بے روزگاری، فاقہ کشی کی ذمہ دار ریاستی اور مرکز ی دونوں حکومتیں ہیں۔ اگر دونوں حکومتیں بدعنوانی پر لگام لگاتیں،مہنگائی سے عوام کو نجات دلاتیں، بےروزگاروں کو روزگار مہیا کراتیں، فاقہ کشوں کو دو وقت کی روٹی مہیا کراتیں تو آج یہ صورت حال پیدا نہ ہوتی۔ اگر یہ حکومتیں اپنے فرائض کی انجام دہی میں کوئی کسر نہ چھوڑتیں اور بدعنوانوں کو ڈھیل نہ دیتیں تو ایک معمولی عہدے پر فائز سرکاری ملازم سے لے کر وزیراعظم آفس تک کے افسران بدعنوانی میں یوں ملوث نہ ہوتے، پھر آج ہندوستان کی تصویر ہی کچھ دوسری ہوتی اور مجاہدین آزادی کے وہ خواب ضرور شرمندہ ¿ تعبیر ہوتے جو انہوں نے ایک مضبوط اور مستحکم آزاد ہندوستان کے طور پر دیکھے تھے۔ مگر افسوس کہ ہمارے بدعنوان سیاست دانوں نے ان مجاہدین آزادی کے خوابوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ان کی روحوں کو تکلیف پہنچائی ہے۔
بلا شبہ یہ بات باعث تشویش ہے کہ آزادی کے بعد ہی سے ملک میں بدعنوانی اور کرپشن بے روک ٹوک ہر شعبہ حیات میں بڑھتی اورپھیلتی جارہی ہے، لیکن اس پرقابوپانے کی کبھی بھی دیانتدارانہ کوشش نہیں کی گئی۔ پہلے یہ بدعنوانی صرف نچلے طبقہ کے ملازموں، سرکاری دفتروں اور افسروں تک ہی محدودتھی، لیکن دھیرے دھیرے اس کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے اور اب اس نے وزارتوں، عدالتوں اور فوجیوں کو اپنے دائرہ میں لے لیاہے۔
بدعنوانی معاشرے کے ہر شعبے میں کینسر کی طرح پھیل چکی ہے۔ انتظامیہ، حکومت اور عدلیہ کوئی بھی اس مہلک بیماری سے محفوظ نہیں ہے۔ان بدعنوانیوں پر لگام لگا پانا حکمراں جماعت خواہ وہ ریاستی حکومت ہو یا مرکزی حکومت ہو، کے سامنے بہت بڑا چیلنج ہے۔ ان بدعنوانیوں کو روکنے کے لیے عوام کو آگے آنا ہوگا۔ جب تک عوام اس کے خلاف آواز بلند نہیں کریںگے، سڑکوں پر نہیں اتریںگے اور زبردست تحریک نہیں چلائیںگے تب تک اقتدار کے نشے میں چور ان حکمرانوں کی نیند نہیں کھلے گی اور نہ ہی ان کی توجہ بدعنوانیوں پر لگام کسنے کی طرف مبذول ہوگی۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام ان بدعنوانیوں اور بے ضابطگیوں سے نجات پانے کے لیے خود سامنے آئیں اور آنے والے انتخابات میں ایسے بدعنوان لوگوں کو ایسا سبق سکھائیں کہ وہ دوسرے لیڈروں کے لیے باعث عبرت ہو۔
عوام بدعنوانی، مہنگائی، بیروزگاری اور فاقہ کشی سے دوچار ہیں۔ ان کا کوئی بھی پرسان حال نہیں ہے۔ چاہے وہ اترپردیش کی برسراقتدار بی ایس پی حکومت ہو یا مرکز کی حکمراں جماعت ہو کسی کی بھی عوام کے مسائل کی طرف کوئی توجہ نہیں ہے۔
جمہوریت میں مضبوط اپوزیشن کا ہونا بھی بہت ضروری ہے۔کسی بھی جمہوریت میں اہم کردار ادا کرنے والی اپوزیشن پارٹی کی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ ایسے حالات میں عوام کے مسائل کو اسمبلی یا پارلیمنٹ کے سامنے رکھے اور ان مسائل کے حل کے لیے بھر پورکوشش کرے۔ لیکن چاہے ریاست اترپردیش کی اپوزیشن جماعت ہو یا مرکزکی اپوزیشن پارٹی ہو، اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام ہے۔
ملک میں بڑھتی ہوئی بدعنوانی، مہنگائی، بے روزگاری، فاقہ کشی کی ذمہ دار ریاستی اور مرکز ی دونوں حکومتیں ہیں۔ اگر دونوں حکومتیں بدعنوانی پر لگام لگاتیں،مہنگائی سے عوام کو نجات دلاتیں، بےروزگاروں کو روزگار مہیا کراتیں، فاقہ کشوں کو دو وقت کی روٹی مہیا کراتیں تو آج یہ صورت حال پیدا نہ ہوتی۔ اگر یہ حکومتیں اپنے فرائض کی انجام دہی میں کوئی کسر نہ چھوڑتیں اور بدعنوانوں کو ڈھیل نہ دیتیں تو ایک معمولی عہدے پر فائز سرکاری ملازم سے لے کر وزیراعظم آفس تک کے افسران بدعنوانی میں یوں ملوث نہ ہوتے، پھر آج ہندوستان کی تصویر ہی کچھ دوسری ہوتی اور مجاہدین آزادی کے وہ خواب ضرور شرمندہ ¿ تعبیر ہوتے جو انہوں نے ایک مضبوط اور مستحکم آزاد ہندوستان کے طور پر دیکھے تھے۔ مگر افسوس کہ ہمارے بدعنوان سیاست دانوں نے ان مجاہدین آزادی کے خوابوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ان کی روحوں کو تکلیف پہنچائی ہے۔
بلا شبہ یہ بات باعث تشویش ہے کہ آزادی کے بعد ہی سے ملک میں بدعنوانی اور کرپشن بے روک ٹوک ہر شعبہ حیات میں بڑھتی اورپھیلتی جارہی ہے، لیکن اس پرقابوپانے کی کبھی بھی دیانتدارانہ کوشش نہیں کی گئی۔ پہلے یہ بدعنوانی صرف نچلے طبقہ کے ملازموں، سرکاری دفتروں اور افسروں تک ہی محدودتھی، لیکن دھیرے دھیرے اس کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے اور اب اس نے وزارتوں، عدالتوں اور فوجیوں کو اپنے دائرہ میں لے لیاہے۔
Friday, February 25, 2011
جامعہ کا اقلیتی کردار: ایک تاریخ ساز فیصلہ
طفیل احمد علیمی
بالآخر اقلیتی تعلیمی اداروں کے قومی کمیشن نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کو اقلیتی تعلیمی ادارہ کی شکل میں 22 فروری 2011 کو منظوری دے دی۔اس معاملے پر سماعت کی شروعات 2006 میں ہوئی تھی۔ جسٹس ایم ایس اے صدیقی کی صدارت والی کمیشن کی سہ رکنی بنچ نے 18 سماعت کے بعد یہ فیصلہ سنایا۔ فیصلہ سناتے ہوئے جسٹس ایم ایس اے صدیقی نے کہا:”کمیشن کے لیے آج ایک تاریخی دن ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کو آئین کی دفعہ 30 کے تحت اقلیتی ادارہ کا درجہ دیا گیا ہے۔“
اس سینٹرل یونیورسٹی کو مسلم اقلیتی ادارہ کا درجہ دئے جانے کا مطالبہ کئی تنظیموں کے ذریعہ طویل عرصہ سے کیا جارہا تھا۔ اس تاریخ ساز فیصلے کا جامعہ مائنارٹی اسٹیٹس کو آرڈی نیشن کمیٹی سمیت تمام ملی و سماجی تنظیموں نے خیر مقدم کیا۔
جامعہ مائنارٹی اسٹیٹس کوآرڈی نیشن کمیٹی کے کنوینر الیاس ملک نے کمیشن کے اس فیصلے کو تاریخی فیصلہ قرار دیتے ہوئےکہا:”یہ تاریخی فیصلہ ہے۔ اس کے لیے ہم طویل عرصہ سے لڑائی لڑ رہے تھے۔ یہ نہ صرف جامعہ بلکہ پورے اقلیتی طبقہ کے لیے بھی خوشی کا دن ہے۔“
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر نجیب جنگ نے کہا کہ یونیورسٹی کو اقلیت کا درجہ ملنے سے اس کی سیکولر شناخت قائم رہے گی۔ انہوں نے کہاکہ اقلیت کا درجہ ملنے سے جامعہ میں کوئی زیادہ تبدیلی رونما نہیں ہونے والی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جامعہ میں پہلے سے ہی 50 فیصد مسلم طلباءتعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اس فیصلے کے بعد ملک کی یہ پہلی سینٹرل یونیورسٹی ہوگی، جسے اقلیت کا درجہ حاصل ہے۔ اس فیصلے سے اب مسلم طلباءکے لیے 50 فیصد سیٹیں طے ہوگئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قومی اقلیتی تعلیمی ادارہ کمیشن کے اس فیصلے سے جامعہ کو کافی راحت ملی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جامعہ کا قیام ہی مسلمانوں کو تعلیمی طور پر مضبوط کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ خلافت اور عدم تعاون کی تحریک کے دوران 1920 میں علی گڑھ میں قائم ہوئی۔ اس کا قیام گاندھی جی کے اس پیغام کے تحت عمل میں آیا تھا، جس میں لوگوں کو حکومت کے تعاون سے چلنے والے تعلیمی اداروں کے بائیکاٹ کی دعوت دی گئی تھی، جن حضرات نے گاندھی جی کی اس صدا پر پرجوش انداز میں لبیک کہا، ان میں مولانا محمد علی جوہر، حکیم اجمل خاں، ڈاکٹر مختار احمد انصاری، عبدالمجید خواجہ اور ڈاکٹر ذاکرحسین کی شخصیتیں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اس طرح یہی ممتاز شخصیتیں اور ان کے رفقاءجامعہ ملیہ اسلامیہ کے بانی ہیں۔
جامعہ 1925 میں علی گڑھ سے دہلی منتقل کردی گئی۔1939میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے نام سے ایک سوسائٹی رجسٹرڈ کرائی گئی۔ علی گڑھ کے بعد اس ادارہ کودہلی کے قرول باغ لے آیاگیا اور پھر جامعہ نگر اس کا مستقل مسکن ہوگیا۔
1962 میں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن ایکٹ کے سیکشن 2 کے تحت جامعہ ملیہ اسلامیہ کوDeemed University کا درجہ حاصل ہوا۔ دسمبر 1988 میں جامعہ ملیہ اسلامیہ ایکٹ 1988 کو پارلیمنٹ کی منظوری ملنے کے بعد مرکزی یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا۔ اس وقت اس کے چانسلر خورشید عالم خان بنائے گئے تھے اور وائس چانسلر کی ذمہ داری علی اشرف کو سونپی گئی تھی۔
جامعہ کے بانیان اور اس کے تعمیر کرنے والے مسلمان تھے اور اس کا قیام انہوں نے مسلمانوں کے لئے ہی کیا تھا۔ لیکن جامعہ نے شروع سے ہی غیرمذہبی تعلیم کے تصور کو ملحوظ رکھا اور بلا تفریق مذہب و ملت طلبہ و کارکنان کے لیے جامعہ نے اپنے دروازے ہمیشہ کھلے رکھے۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قیام کے وقت اس کے بانیوںنے جوخواب دیکھا تھا اسے بڑی حد تک عدالت کے اس فیصلہ نے شرمندہ ¿ تعبیر کردیا۔ اب اس یونیورسٹی میں 50 فیصد سیٹیں مسلم طلبہ و طالبات کے لیے ریزرو ہوںگی اور ایس سی و ایس ٹی طلباءکے لیے ریزرویشن باقی نہیں رہے گا۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر نجیب جنگ کے مطابق ”یونیورسٹی میں اقلیتی درجہ کا نفاذ کرنے سے پہلے کئی قانونی تقاضے پورے کرنے ہوںگے، اس کے بعد ہی اسے نافذ کیا جاسکے گا۔ “ لہٰذا حکومت ہند کو عدالت کے اس فیصلہ کو کسی قانونی داو ¿ پیچ میں الجھائے بغیر قبول کرنا چاہیے اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے انتظامیہ کو جلد از جلد اس فیصلے پر عمل درآمد کرنا چاہیے۔
حکومت ہند نے مسلمانوں کی سماجی، اقتصادی اور تعلیمی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے سچر کمیٹی کی تشکیل دی تھی۔ سچر کمیٹی نے ملک میں مسلمانوں کی سماجی واقتصادی حالت کا جائزہ لینے کے بعد رپورٹ میں جو سفارشات پیش کی تھیں ان کو رو بہ عمل لانے پر غور کرنے کے لیے ایک اور کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔ یہ کمیٹی فروغ انسانی وسائل کے وزیر مملکت محمدعلی اشرف فاطمی کی سربراہی میں 13ممبران پر مشتمل تھی۔فاطمی کمیٹی نے مرکزی حکومت سے کہا تھا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور حیدرآباد یونیورسٹی جیسے اداروں میں مسلمانوں کے لیے سیٹیں بڑھائی جائیں اور جن علاقوں میں مسلمانوں کی تعداد دس ہزار سے زیادہ ہے وہاں مسلم طلباءکے لیے سرکاری اسکول کھولے جائیں۔
قابل غور بات یہ ہے کہ کیا ہندوستان کے کروڑوں اقلیتوں کے مسائل کا حل صرف جامعہ ملیہ اسلامیہ کو اقلیتی کردار دئے جانے سے حل ہوجائے گا؟ کیا سچر کمیٹی کی سفارشات اور رنگناتھ مشرا کمیشن کی رپورٹ پر عمل درآمد کے لیے جامعہ کے اقلیتی کردار کی بحالی ہی کافی ہے؟ حکومت ہند کو اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی سماجی، اقتصادی اور تعلیمی حالات کو سدھارنے کے لیے جلد از جلد سچر کمیٹی کی سفارشات پر عمل کرنا چاہیے اور جس طرح جامعہ ملیہ اسلامیہ کو اقلیتی درجہ دیا گیا ہے، اسی طرح علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو بھی بحال کرنا چاہیے۔
اس سینٹرل یونیورسٹی کو مسلم اقلیتی ادارہ کا درجہ دئے جانے کا مطالبہ کئی تنظیموں کے ذریعہ طویل عرصہ سے کیا جارہا تھا۔ اس تاریخ ساز فیصلے کا جامعہ مائنارٹی اسٹیٹس کو آرڈی نیشن کمیٹی سمیت تمام ملی و سماجی تنظیموں نے خیر مقدم کیا۔
جامعہ مائنارٹی اسٹیٹس کوآرڈی نیشن کمیٹی کے کنوینر الیاس ملک نے کمیشن کے اس فیصلے کو تاریخی فیصلہ قرار دیتے ہوئےکہا:”یہ تاریخی فیصلہ ہے۔ اس کے لیے ہم طویل عرصہ سے لڑائی لڑ رہے تھے۔ یہ نہ صرف جامعہ بلکہ پورے اقلیتی طبقہ کے لیے بھی خوشی کا دن ہے۔“
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر نجیب جنگ نے کہا کہ یونیورسٹی کو اقلیت کا درجہ ملنے سے اس کی سیکولر شناخت قائم رہے گی۔ انہوں نے کہاکہ اقلیت کا درجہ ملنے سے جامعہ میں کوئی زیادہ تبدیلی رونما نہیں ہونے والی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جامعہ میں پہلے سے ہی 50 فیصد مسلم طلباءتعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اس فیصلے کے بعد ملک کی یہ پہلی سینٹرل یونیورسٹی ہوگی، جسے اقلیت کا درجہ حاصل ہے۔ اس فیصلے سے اب مسلم طلباءکے لیے 50 فیصد سیٹیں طے ہوگئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قومی اقلیتی تعلیمی ادارہ کمیشن کے اس فیصلے سے جامعہ کو کافی راحت ملی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جامعہ کا قیام ہی مسلمانوں کو تعلیمی طور پر مضبوط کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ خلافت اور عدم تعاون کی تحریک کے دوران 1920 میں علی گڑھ میں قائم ہوئی۔ اس کا قیام گاندھی جی کے اس پیغام کے تحت عمل میں آیا تھا، جس میں لوگوں کو حکومت کے تعاون سے چلنے والے تعلیمی اداروں کے بائیکاٹ کی دعوت دی گئی تھی، جن حضرات نے گاندھی جی کی اس صدا پر پرجوش انداز میں لبیک کہا، ان میں مولانا محمد علی جوہر، حکیم اجمل خاں، ڈاکٹر مختار احمد انصاری، عبدالمجید خواجہ اور ڈاکٹر ذاکرحسین کی شخصیتیں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اس طرح یہی ممتاز شخصیتیں اور ان کے رفقاءجامعہ ملیہ اسلامیہ کے بانی ہیں۔
جامعہ 1925 میں علی گڑھ سے دہلی منتقل کردی گئی۔1939میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے نام سے ایک سوسائٹی رجسٹرڈ کرائی گئی۔ علی گڑھ کے بعد اس ادارہ کودہلی کے قرول باغ لے آیاگیا اور پھر جامعہ نگر اس کا مستقل مسکن ہوگیا۔
1962 میں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن ایکٹ کے سیکشن 2 کے تحت جامعہ ملیہ اسلامیہ کوDeemed University کا درجہ حاصل ہوا۔ دسمبر 1988 میں جامعہ ملیہ اسلامیہ ایکٹ 1988 کو پارلیمنٹ کی منظوری ملنے کے بعد مرکزی یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا۔ اس وقت اس کے چانسلر خورشید عالم خان بنائے گئے تھے اور وائس چانسلر کی ذمہ داری علی اشرف کو سونپی گئی تھی۔
جامعہ کے بانیان اور اس کے تعمیر کرنے والے مسلمان تھے اور اس کا قیام انہوں نے مسلمانوں کے لئے ہی کیا تھا۔ لیکن جامعہ نے شروع سے ہی غیرمذہبی تعلیم کے تصور کو ملحوظ رکھا اور بلا تفریق مذہب و ملت طلبہ و کارکنان کے لیے جامعہ نے اپنے دروازے ہمیشہ کھلے رکھے۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قیام کے وقت اس کے بانیوںنے جوخواب دیکھا تھا اسے بڑی حد تک عدالت کے اس فیصلہ نے شرمندہ ¿ تعبیر کردیا۔ اب اس یونیورسٹی میں 50 فیصد سیٹیں مسلم طلبہ و طالبات کے لیے ریزرو ہوںگی اور ایس سی و ایس ٹی طلباءکے لیے ریزرویشن باقی نہیں رہے گا۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر نجیب جنگ کے مطابق ”یونیورسٹی میں اقلیتی درجہ کا نفاذ کرنے سے پہلے کئی قانونی تقاضے پورے کرنے ہوںگے، اس کے بعد ہی اسے نافذ کیا جاسکے گا۔ “ لہٰذا حکومت ہند کو عدالت کے اس فیصلہ کو کسی قانونی داو ¿ پیچ میں الجھائے بغیر قبول کرنا چاہیے اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے انتظامیہ کو جلد از جلد اس فیصلے پر عمل درآمد کرنا چاہیے۔
حکومت ہند نے مسلمانوں کی سماجی، اقتصادی اور تعلیمی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے سچر کمیٹی کی تشکیل دی تھی۔ سچر کمیٹی نے ملک میں مسلمانوں کی سماجی واقتصادی حالت کا جائزہ لینے کے بعد رپورٹ میں جو سفارشات پیش کی تھیں ان کو رو بہ عمل لانے پر غور کرنے کے لیے ایک اور کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔ یہ کمیٹی فروغ انسانی وسائل کے وزیر مملکت محمدعلی اشرف فاطمی کی سربراہی میں 13ممبران پر مشتمل تھی۔فاطمی کمیٹی نے مرکزی حکومت سے کہا تھا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور حیدرآباد یونیورسٹی جیسے اداروں میں مسلمانوں کے لیے سیٹیں بڑھائی جائیں اور جن علاقوں میں مسلمانوں کی تعداد دس ہزار سے زیادہ ہے وہاں مسلم طلباءکے لیے سرکاری اسکول کھولے جائیں۔
قابل غور بات یہ ہے کہ کیا ہندوستان کے کروڑوں اقلیتوں کے مسائل کا حل صرف جامعہ ملیہ اسلامیہ کو اقلیتی کردار دئے جانے سے حل ہوجائے گا؟ کیا سچر کمیٹی کی سفارشات اور رنگناتھ مشرا کمیشن کی رپورٹ پر عمل درآمد کے لیے جامعہ کے اقلیتی کردار کی بحالی ہی کافی ہے؟ حکومت ہند کو اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی سماجی، اقتصادی اور تعلیمی حالات کو سدھارنے کے لیے جلد از جلد سچر کمیٹی کی سفارشات پر عمل کرنا چاہیے اور جس طرح جامعہ ملیہ اسلامیہ کو اقلیتی درجہ دیا گیا ہے، اسی طرح علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو بھی بحال کرنا چاہیے۔
Thursday, February 17, 2011
Subscribe to:
Posts (Atom)